ہر پاکستانی کی خبر

الیکشن کی فضا میں بی جے پی کسی نرمی کا اشارہ نہیں دے گی, انڈیا میں ایس سی او اجلاس میں بلاول زرداری کی شرکت

Image Source - Google | Image by
BBC Urdu

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 4 اور 5 مئی کو بھارت کے شہر گوا میں ہوگا، جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہوں گے۔

متعدد متنازعہ مسائل کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدہ تعلقات کے باوجود 12 سال بعد کوئی پاکستانی وزیر خارجہ پہلی بار ہندوستان کا دورہ کرے گا۔

بھارت اور پاکستان کے تعلقات پہلے ہی اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب بلاول بھٹو زرداری کی آمد سے عین قبل بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے پونچھ علاقے میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ حالت اچھی نہیں ہے، جیسا کہ بلاول بھٹو کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی توہین اور بی جے پی کے ایک رہنما کے انتقامی قتل سے ظاہر ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دورے کے اعلان سے کسی مثبت پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔

منفی پہلوؤں کے باوجود بلاول بھٹو کے دورہ بھارت کو تجزیہ کار علاقائی تعاون کے لیے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا نے بلاول کی آمد سے قبل بلاول بھٹو زرداری اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے درمیان دو طرفہ ملاقات کے امکان پر بحث کی تھی۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ بلاول زرداری کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے جس میں چارٹر اور عمل کے لیے پاکستان کی لگن کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خطے میں پالیسی کی ترجیحات۔

ترجمان ارندم باغچی کے مطابق، ہندوستان کا مقصد تمام وزرائے خارجہ کو مدعو کرکے میٹنگ کی کامیابی کو یقینی بنانا ہے۔

ہندوستانی حکومت نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک منصوبہ بند ملاقات سے قبل پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیئے۔ حقیقت میں ملاقات کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بلاول بھٹو سے ملاقات کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پڑوسی ملک کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی کے معاملے کی وجہ سے ایک عرصے سے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بھارت پاکستان پر تشدد کی مختلف کارروائیوں کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگاتا ہے، اور بھارت نے اپنی انتظامیہ کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے۔

پلوامہ حملہ، بالاکوٹ پر ہندوستانی فضائی حملہ، اور پاکستان کی جوابی کارروائی اور ہندوستانی پائلٹ کی گرفتاری دونوں ملکوں کے تعلقات میں اہم مسائل ہیں۔

پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت تک بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا جب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سابقہ ​​حیثیت بحال نہیں ہو جاتی۔ اس کے علاوہ تجارتی تعلقات ختم کر دیے گئے ہیں اور دونوں ممالک کے ہائی کمیشنز میں سفارتی عملہ کم سے کم ہے۔

ایک دانشور سدھیندرا کلکرنی کا ماننا ہے کہ مشکل حالات میں بھی بات چیت مسائل کو حل کرنے میں اہم ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک کالم میں لکھا کہ پڑوسیوں کے درمیان بات چیت ہمیشہ جاری رہنی چاہیے۔

مصنف نے سفارش کی کہ بھارتی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ گوا کے ساحل پر خوشگوار ملاقات کریں، لیکن یہ پیش گوئی کی کہ یہ ناممکن ہے کہ دونوں وزراء کے درمیان سادہ سلام سے بڑھ کر کوئی بات ہو۔

دفاعی تجزیہ کار غزالہ امین کے مطابق بلاول اور جے شنکر کے درمیان کوئی رابطہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

بھارت میں اس وقت انتخابی ماحول ہے اور حکمران جماعت پاکستان کے خلاف سخت موقف برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ تاہم وہ بلاول زرداری کی شرکت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین

ویڈیو

Scroll to Top

ہر پاکستانی کی خبر

تازہ ترین خبروں سے باخبر رہنے کے لیے ابھی سبسکرائب کریں۔