
مئیر بننے کے بعد اختیارات چھین کر کام کر کے دکھائینگے، دوسروں کی طرح رونا دھونا نہیں کرینگے: حافظ نعیم

Faysal Aziz Khan Podcast
- وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے زیادہ اندرون سندھ گھوما ہے۔
- میری کامیابی کے پیچھے میری بیگم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
- عمران خان کی مقبولیت بہت ہے، مگرکراچی میں ان کی ایک سیٹ چلی گئی اورٹرن آوٹ 14 فیصد رہا کیونکہ انہوں نے کراچی والوں کو کچھ نہیں دیا۔
- مئیر بننے کے بعد اختیارات چھین کر کام کر کے دکھائینگے، دوسروں کی طرح رونا دھونا نہیں کرینگے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے خصوصی گفتگو
اسلام علیکم ! میں ہو فیصل عزیز خان ۔ میں اپ کے سامنے ایسی شخصیات کو لانے کی کوشش کر رہا ہوں جو پاکستان کے ہیروز ہیں ہم انھیں چھوٹے چھوٹے پروگرام میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پاتے ۔جنھوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان کےلیے خدمت کی ہے میں کوشش کرر ہا ہوں کہ وہ سب چیزیں سب آپ کے سامنے لے کر آجائیں ان کی زندگی کا سفر اور انھیں کن مشکلات کا سامنا رہا اور وہ پاکستان کے ہیروز ہیں جناب حافظ نعیم الرحمان
فیصل عزیز: اسلام و علیکم
حافظ نعیم الرحمان: و علیکم اسلا م
فیصل عزیز خان: پہلا سوال، آپ کہا ں پیدا ہوئے ؟ کراچی یا حیدرآباد ؟ حیدرآباد کیسے آئے ؟
حافظ نعیم الرحمان:جی! میرے والدین علی گڑھ حیدرآباد کے رہنے والے تھے جب پاکستان بنا تو ہجرت کر کے بہاول پور آگئے۔۔والد ( زاہد خان) بہت محنت کش انسان کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی بہت مدد کی اور صحافت کے مقدس پیشے سے وابستہ رہے۔ہم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہو۔ اور لطیف آباد 10 نمبر میں اک نجی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور 1986 میں معاش کے سلسلے میں سارے کراچی میں منتقل ہوگئے پھر بڑے بھائی کے مشورے کے مطابق گھر کے پاس ہی کالج ہی داخلہ لے لیا ۔کالج میں طلبہ تنظیموں کے بڑے نام تھے جن میں اے پی ایم ایس او اور جمیعت ۔ کالج کے وقتوں میں جمیعت میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر کچھ دنوں بعد ناظم آباد میں اک مظاہرے میں ناظم کے کہے پر تقریر کرڈالی ۔
فیصل عزیز خان: حیدرآباد سے کراچی آگئے، کالج میں آگئے، اس سارے وقت میں آپ کو کتنے عشق ہوئے ؟
حافظ نعیم الرحمان: نہیں جناب، 15 عمر کی برس میں ان چیزوں کا نہیں معلوم تھا اور کالج کے بعد ایک پرائیویٹ جامعہ ( این ای ڈی) میں ڈاخلہ لے لیا پھر اسی میں ساری مصروفیات تھی اسی کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف بھی تھا اس چیز کے مد نظر کبھی عشق کی طرف نہیں آئے ۔سماجی دبا ؤ بھی بہت تھا شاید اسی وجہ سے کبھی یہ کام نہیں کیا یا اسی وجہ سے انھی کاموں سے بچ گیا ۔
فیصل عزیز خان: آپ کی شادی کب ہوئی ؟
حافظ نعیم الرحمان: میری شادی 2001 میں ہوئی جب میری عمر 27 برس تھی ۔ محلے کی کچھ خواتین نے آکر والدہ کو بتایا کہ اک رشتہ نظر میں ہے تو امی نے جا کر بات کی ، اور میں نے اپنی بیگم کو شادی کے بعد دیکھا اور اس وقت میں بے روزگار بھی تھا ۔میں نے 1996 میں کالج سے پاس آؤٹ ہوا اور حیدرآباد میں ہی رہایش پدیز تھا چونکہ اسلامی جمیعت میں محنت کش ہونے کی وجہ سے مجھے عہدے میں ترقی ملتی گئی ۔پہلے این ای ڈی پھر کراچی اور پھر 2 سال سندھ کا ناظم رہا اور اک بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں میں نے موجودہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے زیادہ اندرون سندھ گھوما ہو اور مراد علی شاہ سے زیادہ اندرون سندھ کے علاقوں کا معلو م ہے ۔اک بس دیوانی اور مستانی میں بہت سفر کیا اور اگر اک بس بھی مس ہو جائے تو بندہ وہی ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اور رات آپ کو راستے میں یا کسی سڑک میں گزارنی پڑجاتی ہے اور میں نے ٹریکٹر کے ساتھ بھی بہت سفر کیا تھا اس وقت میں نے بہت کچھ سیکھا ۔
فیصل عزیز خان: شادی کو کتنا وقت ہو گیا
ہے ؟
حافظ نعیم الرحمان: 2001 میں شادی ہوئی تھی اور ابھی 21 سال
بیت گئے ہیں ماشا اللہ سے 4 بچے ہیں بڑا
بیٹا این ای ڈی جامعہ میں ہے دوسرا فرسٹ ائیر کا طالب علم ہے بیٹی میٹرک کلاس میں
ہے اور سب سے چھوٹا 3 جماعت میں ہے ۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے اچھی جگہ تعلیم
حاصل کریں۔اور تقریبا ہر شادی شدہ کی
زندگی میں تھوڑا بہت معاملہ ہو جاتا ہے مگر میری کامیابی کے پیچھے میری بیگم کا
بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ مجھے بہت سپورٹ کرتی ہے اور ہم دونوں مل کر کام کرتے ہیں
چیزیں آپ میں ڈسکس کرتے ہیں۔
فیصل عزیز خان: آپ کر ایک الزام ہے آپ نے
سندھ میں آنے کے باوجود جمیعت میں اور جماعت اسلامی میں لوگوں کو روندتے ہوتے اپنا
مقام بنایا ہے اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟
حافظ نعیم الرحمان:دیکھیں جمیعت میں اور جماعت اسلامی میں
ایک نظم بنا دیا گیا ہے اور ہر شخص اسی طریقے کے تحت پارٹی سطح پر الیکشن لڑ کر
آتا ہے اور سب چیزیں عوام کے سامنے ہیں جماعت اسلامی میں نہ کوئی جدی پشتی امیر ہے
اور نہ ہی پیسے سے عہدہ ملتا ہے بہت سادہ اور اچھا طریقہ ہے اور آپ بھی دیکھیں جماعت اسلامی نیچے جانے کے
باوجود واپس طلوع ہورہی ہے اس کی بنیادی وجہ اس کا نظام اور اسٹرکچر ہے
فیصل عزیز خان: ایک بات بہت زیادہ سوشل
میڈیاپر گردش کرتی ہے جیسا کہ کراچی کے مسائل اجاگر آپ کرتے ہیں کراچی میں سب سے
زیادہ مشہور آپ ہے زیادہ تر ہر معاملے کو اجاکر کرتے ہیں یہ آپ کی لیڈرشپ میں چیزیں زیادہ ہو رہی
ہیں ؟
حافظ نعیم الرحمان: دیکھیں
جب ایم کیو ایم عروج پر تھی تب بھی
ہم لوگ مسائل اجاگر کرتے رہیں مگر جب ” بھائی ” کی "
ہیلو” کی آواز آجاتی تو سب چیزیں
اپنی جگہ سے ہل جاتی کیونکہ اس وقت ان کا عروج تھا اور یہ سارا 35 سال کا
وقفہ تھا پھر 2011 کے آس پاس تحریک انصاف نے مسائل کو لے کر ابھر آئی اور ان کو
حکومت ملی لیکن ان لوگوں نے کراچی کو کچھ دے نہیں سکے مطلب ڈلیور نہیں کر سکے ۔اسی
کے ساتھ ساتھ 2017 میں جب ہم نے کے الیکڑک
کے گورنر یاؤس پر 4 دن کا دھرنا دیا تھا جب گولیاں بھی چل گئیں تھی ہم نے اور ہمارے لوگوں نے اپنی جانیں بھی دی اس
ملک کی خاطر چونکہ تحریک انصاف کراچی کے لیے کچھ نہیں کر سکی اس
کی بڑی وجہ ان کے یہاں کے عہدیدار تھے
فیصل عزیز خان: آپ کو کس نے یہ طریقہ
بتایا تھا کہ بیک وقت مختف جگہ پر دھرنے دینے ہیں اور آپ نے بہت سے مسائل پھر
کراچی میں دھرنے دینے شروع کر دے تھے ؟ اور آپ
کی بات زیادہ تر لندن والے بھائی کی طرح ہوتیں تھی ؟
حافظ نعیم الرحمان: کراچی میں ہم نے لوگوں کی طرح زبان کے نام پر دوسری سیاسی جماعت کی طرح کبھی سیاست
نہیں کی ۔ نہ کبھی کسی کو لڑوایا اور نہ کبھی ایسا ہونے دیا ۔ مگر دوسری سیاسی
جماعت نے ہمیں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آپ مہاجر کے غدار ہیں تو دکھ تو ہوتا تھا اوراس وقت ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرتا تھا ہم
جمیعت والے ہمیشہ سامنہ کرتے آرہے ہیں ۔
فیصل عزیز خان:مجھے پتہ ہے آپ لیڈرشپ کے
حوالے سے نمبر ون پر ہیں تو مجھے معلوم نہیں سراج الحق کے بعد آپ جماعت اسلامی کے
امیر بن سکتے ہیں یا نہیں ؟ تو پھر چھوڑیں اور جوائن کریں پاکستان تحریک انصاف
کیونکہ وہاں عمران خان کے بعد آپ کے چانسز زیادہ ہیں ؟
حافظ نعیم الرحمان: جماعت اسلامی بھی پاکستان کیلئے کام
کررہی ہیں جیسا کہ عبدالستار ، نعمت اللہ خان
۔ یہ سب لوگ جماعت اسلامی ہی کے ہیں جنھوں نے مل کر اس ملک کیلئے کام کیا ۔
فیصل عزیز خان: حافظ صاحب ہم لوگ جب سوچتے
ہیں وہ زیادہ تر باتین آپ کی زبان سے سن رہے ہوتے ہیں کتنا درد ہوتا ہے جب لوگ
کراچی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ؟
حافظ نعیم الرحمان:جب کئی لوگ امیدیں باندھ لیں قربانیاں
دیدیں اور انھیں کچھ نہ ملے تو وہ لوگ مایوس ہو جاتے ہیں اور انھیں واپس امید
دلانا بہت مشکل ہو جاتا ہے
فیصل عزیز خان: آپ سے کون یا کونسی جماعت
ڈر رہی ہے ؟
حافظ نعیم الرحمان: سب کو معلو م ہے ہماری جماعت کا، سروتے
بھی دیکھیں آپ ، دوسرا پی پی پی الیکشن کروانا نہیں چاہتی کیونکہ ان میں بہت آمریت
ہے
فیصل عزیز خان: ایم کیو ایم کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے ؟
حافظ نعیم الرحمان: ایم کیو ایم بہت خوف کھا رہئ ہے جیسا کہ
سب کو معلو م ہے عمران خان کی مقبولیت بہت ہے اسی وجہ سے انھیں
مینڈیٹ ملا مگر اس بار کراچی میں ان کی ایک سیٹ چلی گئی اور ٹرن اوور 14
فیصد رہا کیونکہ انہوں نے کراچی والوں کو کچھ نہیں دیا ۔ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں
ان شااللہ کراچی سے مئیر کراچی حافظ نعیم الرحمان ہی ہونگے ۔کیونکہ اس وقت شہر
کراچی کے مسائل کو لیکر نتیجہ سب کے سامنے ہے
فیصل عزیز خان: اگر مئیر بن جاتے ہیں تو اختیارات ؟؟
حافظ نعیم الرحمان: اختیارات چھین کر کام کر کے دکھائینگے
جیسے کہ پہلے بھی کیے تھے دوسروں کی طرح رونا دھونہ نہیں کرینگے یا فائل نہیں
پھینک کر چلے جائیں گے ۔
فیصل عزیز خان: ایک حیران پروجیکٹ پی آئی اے آی سی ؟ آئی ٹی سے متعلق ؟ اس کا
ارادہ کس کا تھا ؟
حافظ نعیم الرحمان: شہر کراچی کیساتھ جو سوتھیلی ماں والا
سلوک ہو رہا ہے اسی وجہ سے ہم نے سوچا کہیں ایسا نہ یو کے کہیں لوگ غلط کاموں کی
طرف چلیں جائیں چونکہ شہر کراچی کے لیے بہت سے مسائل ہیں کوٹہ سسٹم، تعلیم اور بے
حد ایسی چیزیں جن سے یہ محروم ہیں اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ کام کیا اور آپ نے دیکھا کہ کتنے ہزار لوگوں نے آئی ٹی
کا ٹیسٹ دیا جس کہ کام ابھی بھی جاری ہے
اسی کے ساتھ ساتھ بہت سی کمپنیوں نے ہمارے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے اور مل کر کا م
کر رہیں ہیں اسی طرح یہ کام جاری رکھنا ہے
تا کہ کراچی والوں بھی اچھی زندگی بسر کرنے کی جانب گامزن ہو سکیں ۔