ہر پاکستانی کی خبر

نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی کے والیم 10 میں اے آر وائی نیوز نے جان لیا کہ کیا کیا شامل تھا۔

Image Source - Google | Image by
Ary Urdu

پاناما پیپرز کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو نواز شریف کے کرپشن میں ملوث ہونے کے شواہد مل گئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 میں اس بارے میں معلومات شامل ہیں۔

اس سال کے شروع میں پاکستانی سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے والے اعجاز افضل نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ پاناما پیپرز لیکس کے والیم ٹین میں شریف خاندان کے مختلف ممالک میں مالی معاملات کے شواہد موجود ہیں۔ افضل کا کہنا ہے کہ والیم ٹین میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے پاکستانی ریاست کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔

واٹس ایپ کا ذکر اسٹاک مارکیٹ کی تجارت کو تیز کرنے کے ممکنہ طریقے کے طور پر کیا گیا، لیکن حکومت نے کہا کہ اسے فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ پھر، رجسٹرار (ایک کمپنی جو اسٹاک مارکیٹ کے انتظام میں مدد کرتی ہے) نے ایس ای سی کے چیئرمین (امریکی اسٹاک مارکیٹ ریگولیٹر) کو واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا جس میں جے آئی ٹی (ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم) کے لیے نئے نام طلب کیے گئے۔ لیکن جب نئے ناموں کی جانچ پڑتال کی گئی تو وہ خراب نکلے۔

چیئرمین نے حکومت کو بتایا کہ اسکول کے لیے نئے ناموں کا انتخاب کیا گیا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہی شخص حکومت کو وہی خفیہ معلومات واٹس ایپ پر بتاتا رہا ہے۔ ہمیں تحریری طور پر نام پوچھنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے یہ اس طرح کیا کہ یاد رکھنا آسان تھا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت نے پاناما کے پہلے فیصلے میں نواز شریف کو مجرم قرار دیا۔ کنی بنچ کے سربراہ بنے تو ن لیگ نے مٹھائی کھلائی۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ اقامہ اور کمپنی کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جسے وکلاء نے تسلیم کر لیا تھا۔ اس کے بعد تنخواہ نواز شریف کے اکاؤنٹ میں آتی رہی لیکن گزشتہ سال جب تک دستاویزات جمع کرائی گئیں اس کا انکشاف نہیں ہوا۔ قانون کہتا ہے کہ گزشتہ سال جون تک دستاویزات جمع کرواتے وقت تمام اثاثے ظاہر کیے جانے چاہیے تھے لیکن تنخواہ جنوری 2013 میں واپس کر دی گئی اور نواز شریف ابھی تک اس سے تنخواہ لے رہے تھے۔

 

اعجاز افضل کا کہنا ہے کہ اگر سیاستدان صرف یہ کہہ دیتے کہ وہ اپنی الیکشن فائلنگ میں اپنی تنخواہ کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں تو اس معاملے کو دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ نہیں سمجھتا کہ اس غلطی پر کسی کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے۔

جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ جب پہلی بار دستاویز لی گئی تو معاملہ کھلا ہوا تھا۔ 2006 میں یہ فونٹ کمرشل طور پر دستیاب نہیں تھا تو مریم نواز نے اسے جعلی قرار دیا۔ اس سے یہ معاملہ متنازعہ ہو گیا اور ایک معاہدہ اور کمپنی اس میں آ گئی۔ نواز شریف کو بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین بنایا گیا اور انہیں 10 ہزار درہم ماہانہ تنخواہ دی گئی۔

وکیل نے کہا کہ شریف کی تنخواہ 2006 سے جنوری 2013 تک ان کے اکاؤنٹ میں جاتی رہی، جب ان کے وکیل خواجہ حارث اور سلمان اکرم سے پوچھا گیا تو دونوں نے تسلیم کیا کہ یہ سچ ہے۔ اگر شریف کو اس رقم پر اختیار نہیں تھا تو اس نے لاکھوں درہم اپنے بیٹے کو کیسے واپس کیے؟

جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل کا کہنا ہے کہ قانون کو آپ کی مستقبل کی تنخواہ کی کوئی پرواہ نہیں، یہ صرف اس رقم کی پرواہ کرتا ہے جو آپ کے بینک اکاؤنٹ میں گزشتہ سال جون تک تھی۔ اگر یہ ممکن ہے تو نواز شریف، ایک ریپسٹ کو تین سال جیل میں گزارنے کے بعد اقتدار میں کیوں نہیں بھاگنے دیا جاتا؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین

ویڈیو

Scroll to Top

ہر پاکستانی کی خبر

تازہ ترین خبروں سے باخبر رہنے کے لیے ابھی سبسکرائب کریں۔